سیٹلائٹ آئی کیوب قمر پاکستان Stellite i Cube Qamar Pakistan

0

 پاکستانی سٹلائٹ کیوب حقیقت کیا ہے۔ کیا  پاکستان چاند تک پہنچ سکتا ہے۔ 

i Cube Qamar Pakistan
i Cube Qamar Pakistan 

اس وقت زمین کے مدار میں صرف دو سپیس ا سٹیشن ہیں ۔ ایک سپیس اسٹیشن کا نام انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن (ISS) جو پوری دنیا نے مل کر بنایا ہے۔ اور جسے امریکہ کے خلائی ادارے ناسا اور اسپیس ایکس سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ اور دوسرا سپیس اسٹیشن( China's Tiangong Space Station ) اکیلے چین نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا ہے۔ چائنہ نے اپنا مشن ( چانگ ای 6)چاند پر بھیجنے کا اعلان کیا۔ مشن کے تین حصے تھے ۔ پہلا مرحلے میں راکٹ کا ایک حصہ الگ ہو کر چاند کے قریب ترین مدار میں چاند کے گرد چکر لگا کر چاند کی تحقیق کرے گا اور راکٹ کے دوسرے دونوں حصوں کو چاند کی سطح پر اُتارنے میں مدد کرے گا۔ چین نے دو سال قبل ایشیائی خلائی ایجنسی ایشیا پیسفک اسپیس کو آپریشن آرگنائزیشن کے رکن ممالک کو دعوت دی کہ وہ اپنا خلائی سیٹ لائٹ چین کے مشن کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔ تو (SCO) کے آٹھ ممالک جن میں (ترکی، منگولیا، پیرو، تھائی لینڈ، ایران، بنگلہ دیش اور پاکستان شامل ہیں اِن ممالک کی علاوہ دوسرے ممالک نے بھی درخواست دی لیکن خوش قسمتی سے چائنا نے پاکستان کی درخواست منظور کی ۔ پاکستان کے ادارے ( سپارکو) جس کے سائنسدان تو سارا دن دفتروں سوتے رہتے ہیں۔ جن کے سونے کی گواہی وہاں کے سیکورٹی گارڈ اور چائے پلانے والے آفس بوائے بھی دیتے ہیں ۔ تنخواہ لینے کے علاوہ سپارکو کے کچھ آفیسر چھت پڑ چڑھ کر بادلوں کو دیکھ کر موسم کا حال بھی بتاتے تھے۔ لیکن اب سپارکو نے موسم کا حال  بتانا بھی چھوڑ دیا۔ پاکستانی حکومت نے سوچا کہ یہ (سپارکو) کے بس کی بات نہیں کہ سیٹلائٹ کیوب تیار کر سکے۔اِس کے علاوہ اچھا سیٹلائٹ بنانے کے لیے کم از کم ایک ارب ڈالر چاہیے ۔ جبکہ پاکستان کے پاس صرف سات ارب ڈالر ہیں وہ بھی پاکستان کے اپنے نہیں تین ارب سعودی عرب کے اور دو ارب چین نے دئیے تھے سی پیک کے لیے باقی آئی ایم ایف سے قرض لیا ہوا ہے۔ ہم چین کے علاوہ کسی اور ملک کو قائل ہی نہیں کر سکے کہ کوئی ملک پاکستان میں انویسٹ کرے سعودی عرب بھی مہنگا تیل پاکستان کو فروخت کرتا ہے اور پاکستانی حج اور عمرہ کرنے والوں سے بھی اچھی خاصی کمائی کرتا ہے اِس لیے پاکستان کی مدد کر دیتا ہے ۔ دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں طالب علم یونیورسٹیوں میں اپنی ریسرچ کے لئے کتابوں سے پڑھ کر چھوٹے چھوٹے پانچ سے دس کلو گرام کے کیوب تیار کر تے ہیں۔ پاکستانی طالب علموں نے 2013 میں کیوب تیار کر لیا تھا لیکن اُس کو خلا میں بھیجنے کے لئے ٹیسٹنگ باقی تھی ۔ اِس لیے (سپارکو) کے ڈاکٹر عامر گیلانی نے پاکستانی حکومت سے مل کر یونیورسٹی کے طالب علموں سے رابطہ کیا ۔ طالب علم ڈاکٹر خرم بشیر اور ڈاکٹر ریحان محمود کو ڈاکٹر قمر السلام کی سربراہی میں چین بھیجا گیا وہاں انہوں نے دو سال تک تحقیق کی اور سیٹلائٹ کیوب کے فری میں تجربے کیے۔ کیوب کو کیسے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت اور کم سے کم درجہ حرات میں کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور پھر 2024میں سات کلو کا دو ہائی ریزولیوشن آپٹیکل کیمروں والا(آئی کیوب قمر) تیار کر لیا۔ 

Mission i cube team Qamar-ul-islam, rehan mehmood, khuram basheer
Mission i cube team Qamar-ul-islam, rehan mehmood, khuram basheer

( یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے مئی 2024 تک دنیا میں 9900 فعال سیٹلائٹ ہیں جو زمین کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ پاکستان نے اب تک چھ سٹلائٹ خلا میں بھیجے ہیں۔ سٹلائٹ کے نام بدر ون، بدر B، پاک سیٹ، کیوب ون، پاک سیٹ A، پرس ون بھیجے ہیں ۔ دنیا کے 9900 سیٹلائٹ میں سے چھ پاکستان کے ہیں کچھ نا ہونے سے تو بہتر ہی ہے۔ )

i cube Qamar Pakistan
i Cube Qamar Pakistan 

لیکن سیٹلائٹ کیوب ایسا سیٹلائٹ ہوتا ہے جو زمین کی بجائے چاند کے گرد چکر لگاتا ہے۔ یہ ایسے سستے  کیوب ہوتے ہیں جن کو زمین سے 600سے 1000 کلومیٹر دور خلا میں کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے۔ جتنا چاند کے مدار کے قریب سیٹلائٹ بھیجنا ہے کیوب بنانے اور اُسے کنٹرول کرنے والی زمین پر موجود ڈیوائس کا خرچہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ چاند کا زمین سے فاصلہ تقریباََ تین لاکھ اَسّی ہزار کلو میٹر ہے۔ جبکہ پاکستان کا کیوب زمین سے ایک ہزار کلو میٹر دور چاند کے زیریں مدار میں چکر لگائے گا۔ یعنی ابھی پاکستان کو چاند پر جانے کے لیے تین لاکھ ستر ہزار کلو میٹر طے کرنا باقی ہیں۔  چین نے 3مئی کو مشن لانچ کیا اور پاکستان کا سیٹلائٹ کیوب پاکستانی وقت کے مطابق 1:14 بجے چاند کے زیریں مدار میں داخل کیا۔ جو تین سے چھ ماہ تک چاند کے مدار میں گردش کرے گا۔ آئی کیوب قمر سے پہلی تصویر 16 مئی تک موصول ہو گی۔  اِن سیٹلائٹ کیوب کا یہ فائدہ ہے کہ جب یہ چاند کی تصویر کھینچتے ہیں تو زمین کے بادل اور گردو گبار درمیان میں نہیں ہوتے جس کی وجہ سے تصویر کافی حد تک صاف نظر آتی ہے۔ اب تک پانچ ممالک تھے جنہوں نے بہت سے ایسے کیوب خلا میں بھیجے ہیں۔ جن میں امریکہ، چین، روس، جاپان اور بھارت شامل ہیں۔ لیکن چین نے پاکستان کا کیوب نا صرف خلا میں بھیجا بلکہ کیوب بنانے اور ٹیسٹ کرنے میں جتنا خرچہ آیا سب چین نے کیا اور پاکستان کا نام بھی اِس لسٹ میں لکھوا دیا ہے۔ ہم سب کو چائنہ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔ جو ہمیں ہرقسم کا مزائل، جنگی جہاز وغیرہ بنا کر دیتا ہے۔ اور پاکستانی حکومت کا بھی شکریہ جو ہر جہاز تیار کرنے یا  مزائل لانچ کرنے کے بعد کہتی ہے پاکستانیوں کو مبارک ہو ہم نے چائنہ کے تعاون سے تیار کر لیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستانی خود کچھ نہیں بنا سکتے۔ جو بھی پڑھے لکھے قابل لوگ ہوتے ہیں ان کو پاکستان میں اچھی نوکریاں نہیں ملتی اس لئے وہ دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ باقی امیر طبقے کا نالائق کچرہ پاکستان میں رہ جاتا ہے۔ جو پاکستان کے ہر ادارے میں اعلی عہدوں پر بیٹھ کر پاکستان کو سنوارنے لگ جاتا ہے۔ 

پاکستان کاچاند پر جانے کا اگلا مشن یہ ہے کہ جب2028 میں چین کا (چانگ ای 8) چاند پر جائے گا تو پاکستان اُس پر اپنا روور یعنی چھوٹی سی چاند گاڑی بھیجے گا۔ جس کی مدد سے چاند کی مٹی کی تحقیق بھی کی جائے گی۔ پاکستانی ڈاکٹر قمر السلام اور ان کے ساتھ پاکستانی طالب علم چین میں اِس مشن پر کام کریں گے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)